تصور شیخ
آئیے! شعبہ نشر و اشاعت النور ویلفیئر نیت ورک کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں النور ویلفیئر نیت ورک کی ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں
تصور شیخ اور فنا فی الشیخ کا مطلب
#1
درس تصوف
تصور شیخ اور فنا فی الشیخ کا مطلب
ہم تصور شیخ اور کشف قبر کے ذریعہ جو کام مہینوں اور سالوں میں کر لیتے ہیں، دوسرے سلسلوں میں حضوری کی وہ کیفیت زندگیاں گزارنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتی ۔ دراصل انسان کا وجود ایک ایسا بند ڈبہ ہے جس کے ایک سرے پر ایک باریک سراخ ہو جس پر حواس خمسہ کا نمائشی بٹن لگا دیا گیا ہو ۔ یہ آپ کے ارد گرد چلتے پھرتے انسان نظر آتے ہیں ، یہ سب بند ڈبے ہیں ، سر بہ مہر لفافے ہیں، انہیں کیا پتہ کہ اشیاء کی حقیقت کیا ہے۔ بند ڈبوں کی مہر توڑنا اور ان کی مخفی قوتوں کے بٹن آن کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کو سونپا ہے ۔ یہ علم لدنی ہے جو کسی کتاب میں لکھا گیا اور نہ ہی ورق اس کے لکھے جانے کا متحمل ہوسکتا ہے ۔ اس کی حقیقت پر وہی لوگ مطلع ہوسکتے ہیں جن کے لطائف بیدار ہوں، جو خود بند ڈبہ نہ ہوں بلکہ ان کی اخفی قوتیں بہ تمام و کمال بیدار اور فعال ہوں ۔
ذرا غور کرو اگر کسی کا صرف لطیفہ قلبی بیدار ہوجاتا ہے تو و ہ دوسروں کے خیالات پڑھ لیتا ہے ۔ اس کے ارادوں سے آگاہ ہوجاتاہے ۔ آپ لوگ راہِ سلوک کے مسافر ہیں ۔ آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ یہ بند ڈبّہ جسے بعض لوگ انسان کہتے ہیں، ایک ہفت پہل یا ہفت ابعاد کی لطیف روحانی شئے ہے جس کے سات دروازے ساتھ سمتوں میں کھلتے ہیں ۔ پہلا لطیفۂ قالبی یعنی جسم ہے۔ دوسرا لطیفہ انفس یعنی نفس ہے ۔ تیسرا قلبی ہے جس کا ابھی میں تذکرہ کرچکا ہوں۔ چوتھا لطیفہ ٔ روحی ہے ۔ اور پانچویں کو لطیفہ سرّی کا نام دیا جاتا ہے ۔ چھٹا لطیفہ خفی اور ساتواں لطیفہ اخفاء سے موسوم ہے۔ یہ وجود کی ابعاد بھی ہیں اور جہتیں بھی ۔ بلکہ سچ پوچھئے تو ایک نورانی شے کو ، جو اپنے خالق سے جدا ہوکر دوبارہ اس کے وصل کے لئے تڑپ رہی ہے، اس کی کیفیت اور سریت کا الفاظ میں بیان کیا جاناممکن نہیں ۔ اس لیے کہتے ہیں کہ منازل سلوک بیان کی نہیں برتنے کی باتیں ہیں ۔آپ حضرات جب تصور شیخ میں مراقبہ زن ہوتے ہیں تو ہر شخص کا تجربہ ایک دوسرے سے اتنا مختلف ہوتا ہے جسے سلوک کے کسی ڈسپلن کے تابع نہیں کیا جاسکتا ۔ خواجگانِ نقشبندی کےسامنے وقتاً فوقتاً مریدوں کی طرف سے مختلف مسائل پیش کیے گئے ۔ ہمارے کبار شیوخ نے مختلف حالات میں مختلف حل تجویز کیے ۔ ظاہر بین مسلمانوں کو یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے ۔ا س لیے کہ ان کا ڈبہ بند ہے، ان کے لطائف منجمد ہیں ۔ بھلا وہ ان حقائق کوکیسے سمجھ سکتے ہیں ۔ اب دیکھئے میں اس نکتہ کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں ۔ حضرت مجد د الف ثانی کو کسی خواجہ محمد اشرف نے اپنی ایک ذہنی الجھن کا ذکر کرتےہوئے لکھا کہ میرا تصور شیخ اس حدتک غالب آچکا ہے کہ میں نماز میں بھی اپنے شیخ کے تصور کو اپنا مسجود جانتا اور دیکھتا ہوں ۔ اگر نفی بھی کروں تو منتفی نہیں ہوتا ۔
شیخ نے اس کے جواب میں لکھا ، جیسا کہ مکتوب نمبر 30 ، دفتر دوم، حصہ اول میں منقول ہے کہ تصور شیخ کی نفی کی قطعی ضرورت نہیں ، یہ وہ دولت ہے جو طالبان حق کی تمنا اور آرزو ہے، ہزاروں میں ایک کوملتی ہے۔ پریشان ہونے کی بات بھی کیا ہے۔ وہ شیخ مسجود الیہ ہے، مسجود لہ تو نہیں ۔ یعنی اس کی حیثیت اس شخص کی ہے جس کی طرف سجدہ کیا جائے نہ کہ جس کو سجدہ کیا جائے ۔ اگر محرابوں اور مسجدوں کی طرف سجدہ کرنے سے نماز میں خرابی واقع نہیں ہوتی تو مرشد کامل کی طرف سجدہ کرنے سے ایسا کیونکر ہوسکتاہے ۔ بظاہر یہ ایک باریک فرق معلوم ہوگا لیکن بند ڈبے والے اس امر پر آگاہ نہیں ہوسکتے ۔ یہ کہتے ہوئے شیخ طریقت نے اپنے کاغذوں کی ترتیب بدلی فرمایا کہ جو حضرات چاہیں وہ اپنی سہولت کے لیے ان حوالہ جاتی کتب کے نام نوٹ کرسکتے ہیں ۔ یہ وہ کتابیں ہیں جن پر ہماری شریعت طریقت کامدار ہے۔
پھرفرمایا : شیخ کی محبت، اس کا دل میں بسانا فی نفسہ فیض کاباعث ہے۔ اس کی طرف توجہ کرتے ہی سمجھو کامیابی کا دروازہ کھل جاتا ہے جیسا کہ مکتوب نمبر 360، حصہ چہارم، دفتر اول میں حضرت مجد صاحب نے فرمایا ہے۔ اگر کوئی عقیدت مند توجہ الیٰ الشیخ میں بھی کامل نہ ہو اور ذکر الہٰی میں بھی اس کادل نہ لگتا ہو تب بھی فقط محبت کے باعث ہدایت کا نور اس کو پہنچا رہتا ہے ۔پیر کےبغیر مجاہد کی کوئی کوشش برگ و بار نہیں لاسکتی ۔ اگر ہمیں اس سلسلے کی اہمیت کا اندازہ ہوتو کوئی صحیح الداماغ آدمی پیر کے بغیر روحانی فیوض کے حصول کی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں اویسی بن جاؤ لیکن جاننا چاہئے کہ یہ وہ منصب ہے جو حق تعالیٰ یا رسالت مآب یا کبار شیوخ کی رواح خود عنایت کرتی ہیں۔مجاہدے سے یہ دولت ہاتھ نہیں آتی ۔ یہ ایک بڑا پیچیدہ عمل ہے جس کی حقیقت پر بہت کم اہل دل مطلع کیے گئے ہیں ۔ میں آپ کی سہولت کے لیے کچھ مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دیکھئے یہ بات اہل سلوک کے درمیان معروف ہے کہ بایزید سنا ہوگا کہ ابوالحسن خرقانی کو بایزید بسطامی کی نسبت حاصل ہے ۔ اسی طرح بہاء الدین نقشبندی کی تربیت حضرت خلیل خواجہ امیر کلال کے ہاتھوں ہوئی ۔ مگر آپ کے معنوی پری عبدالخالق غجدوانی تھے جو گو کہ آپ کی آمد سے پہلے واصل حق ہوچکے تھے مگر ان کی روح خواجہ بہاء الدین کے باطن پر جلوہ فگن ہوئی اور اسطرح انہیں اپنی راست تربیت میں لے لیا ۔یہ ان ہی کبار روحوں کے اتصال کانتیجہ تھا کہ حضرت بہاء الدین کو تصوف میں یہ اعلیٰ مقام حاصل ہوا ۔ محض مجاہدے اور ریاضت سے یہ سب کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔ حضرت باقی باللہ نے صاحب قبر سے فیض حاصل کرنے کےلیے اپنے پیر کو و اسطہ بنانے کی تلقین کی ہے۔ اپنے خلیفہ تاج الدین کو وہ لکھتے ہیں کہ ویسے تو مقصود حق ہے۔ ہمارا حجاب درمیان میں نہ ہو تو نور علیٰ نور ہے۔ لیکن پیر کو درمیان میں نہ رکھنا عدم ترقی کا باعث بن جاتا ہے۔
عزیزان من! اگر کسی کی انگلی پکڑے بغیر راہ سلوک پر چلنا ممکن ہوتا تو معین الدین چشتی جیسےشخص کو علی ہجویری کے مزار پر چلہ کشی کی ضرورت کیوں پیش آتی ۔ آپ جسے بھی شیخ بنائیں اس کے غیر مشروط اتباع کو اپنا فریضہ جانیں ۔ فنافی الشیخ کا مطلب یہی ہے کہ سالک اپنے آپ کو شیخ کی ذات میں محو کردے۔ اس کا اپنا علیحدہ کوئی وجود باقی نہ رہے۔ جس طرح آفتاب کے سامنے کسی چیز کا سایہ گم ہوجاتاہے اور جب وہ اوٹ میں چلا جائے تو اس کا سایہ قائم ہوجاتا ہے ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فنافی اللہ تھے اس لیے راویوں نے لکھا ہے کہ ان کا سایہ نہیں بنتا تھا ۔ مرید کو بھی اسی طرح فنافی الشیخ ہونا چاہئے ۔ جب آپ اس مقام پہ آجاتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ بیٹھے بٹھائے کسی مجاہدے کے بغیر اپنے شیخ سے اور شیخ کے شیخ سےبلکہ سلسلہ ذہب کی تمام ارواح سے بیک وقت لامتناہی فیض حاصل کررہے ہیں۔
ہمارے شیخ نے ایک بار اپنا تجربہ بتایا کہ ایک دن جب وہ مصروف مراقبہ تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کی روح جو ہزاروں میل کے فاصلے پر تھی وہ ان سے اس قدر فیض لیے جارہی تھی کہ انہیں ایسا لگا جسے وہ خالی ہوئے جاتے ہوں ۔ توجہ کی تو معلوم ہوا کہ وہ ان کا ہی ایک مرید تھا جو اتنی دور سے انہیں خالی کیے جارہا تھا لیکن فیض الہٰی چونکہ لامتناہی ہوتاہے اس لیے شیخ کا دامن کبھی خالی نہیں ہوتا وہاں یہ بھی جان لو کہ فیض کا سلسلہ زندہ سے مردہ او رمردہ سے زندہ کی طرف یکساں جاری رہ سکتاہے کہ اہل دل کی دنیا میں حیات و موت جیسے الفاظ کچھ معنی نہیں رکھتے ۔ یہ تو بند ڈبے والوں کی اصطلاحات ہیں ۔ آئیے پورے ارتکاز کے ساتھ مکاشقے کی کوشش کریں ۔ اللھم صلی علیٰ محمد و علیٰ آل محمد و صحبہ و بارک وسلم کے دائروی ذکر کے ساتھ ہی تیز برقی روشنی مدھم ہوگئی اور نیم تاریک ماحول میں حبس ِ دم کے ذریعہ شیخ سے اتصال کی کوشش تیز تر کردی گئی
شیخ طریقت خلیفہ میاں حضور آصف سعید طارقی قادری شاذلی
شعبہ نشر و اشاعت
طارقیہ روحانی سینٹر النور ویلفیئر نیت ورک
00923102880751
Good work