جب مرشدِ کامل سے نسبت حاصل ہو جائے تو اب دل و جان سے اس کی محبت میں خود کو گم کردے، اور اس کے ادب و احترام اولین ترجیح دے۔
ادب اور محبت دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں جسقدر دل میں محبت پیدا ہوگی اُسی قدر ادب میں اضافہ ہوگا، اور جسقدر ادب کو اختیار کیا جائے گا محبت ترقی کرے گی،
محبت ایک جذبہ ہے ، جس کا نتیجہ ادب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، محبت میں اضافے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں جن کو اختیا ر کرنے سے محبت میں شدت پیدا ہوتی ہے، جس میں سب سے مؤثر ذریعہ ذکرِ الہی اور تصورِ شیخ ہے، جس قدر ذکرِ الہی میں شدت پیدا ہوتی جائے گی محبت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور ذکرِ الہی سے تصورِ شیخ میں خود بخود پختگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے،
جب ایک سالک پر کیفیات کا نزول ہوتا ہے تو ان لمحات میں وہ خود کو دریائے محبت میں غوطہ زن پاتا ہے اوراس کا محور ذاتِ مرشد کو دیکھتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ ان کیفیات سے باہر آتا ہے، دیناوی معاملات اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں ، اور اس کی توجہ کم ہونے لگتی ہے۔
کیفیات کا ہر وقت قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سالک کو چاہئے کہ راہِ طریقت میں کسب کو بھی اختیار کرے۔
آدابِ مرشدِ کامل کسی کتاب میں درج الفاظ پر مبنی شرائط پر عمل پیرا ہونے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ تو وہ کیفیاتِ باطنی ہیں جو اس راہ پر چلنے والے پر گاہے بہ گاہے طاری ہوتی رہتی ہیں اور ان لمحات میں جو آداب کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں انہی کو حالتِ ہوش میں اپنے کسب سے جاری رکھنے کا نام ادب ہے۔
البتہ صوفیائے کرام نے سالکین کی رہنمائی کے لئے آداب کے سلسلے میں بہت کچھ تحریر فرمایا ہے، مرشدِ کامل مظہرِ خداوندی ہوتا ہے، تو چاہئے کہ ادب بھی ویسا ہی کیا جائے۔
اصل ادب تو یہ ہےکہ طالب اپنے مرشد کی تعلیمات فرمودات پر مکمل طور پر عمل کرے اپنے ظاہر و باطن کو اپنے مرشد کے سراپا میں ڈھالے ، ان کی پسندیدہ چیزوں کو اپنی پسند بنائے اور جن چیزوں کو وہ ناپسند فرماتے ہیں ان کو ترک کردے، گناہوں کر ترک کردے اوراعمالِ صالح اختیار کرے۔
جب اپنے مرشد کے حضور حاضری کا ارادہ ہو تو خوب صاف ستھرا لباس زیبِ تن کرے ، باوضو ہو، سر ڈھکا ہوا ہو اور نہایت ادب سے چلتا ہوا بارگاہِ مرشدی میں حاضر ہو، دروازے پر نہایت آہستگی سے دستک دے اور مودب کھڑا رہے، انتظار کرے تاآنکہ گھر سے کسی کا جواب موصول ہو، اس بات کا بھی خیال رکھے کہ مرشد سے ملنے کا وقت ایسا مقرر کرے جس میں اُن کی مصروفیات میں کوئی خلل واقع نہ ہو، اور اگر ہو سکے تو اپنے شیخ کی خدمت میں کچھ کھانے پینے کی اشیاء لے کر جائے۔
ادب سے دست بوسی کرے اور جب تک مرشد اپنی نشست پر بیٹھ نہ جائیں یہ ادب سے سر جھکا کر کھڑا رہے، پھر شیخ کے حضور دو زانو سر جھکا کر بیٹھے اور ان کے ارشادات کو کان لگا کر خوب شوق کے ساتھ سنے، اگر کوئی بات کرنا ہو تو نہایت دھیمے اور نرم لہجے میں کرے، شیخ کی غیر موجودگی میں ان کی نشست پر نہ بیٹھے ،
شیخ سے اونچی جگہ پر نہ بیٹھے، جب شیخ کے ساتھ چلنے کا ارادہ ہو تو ان کے سائے کا بھی احترام کرے، ان کے سائے پر بھی قدم رکھنے سے گریز کرے۔
اپنے مرشد کی طرف کبھی پیٹھ نہ کرے، جب اجازت لے کر جانا چاہتا ہو تو اُلٹے قدموں واپس ہو۔
اگر مرشد کسی بات پر ناراضگی کا اظہار فرمائیں تو جن وجوہات کی بنا پر شیخ ناراض ہوئے ہیں ان کا فوری طور تدارک کرے، ان کی کسی بات پر اعتراض نہ کرے، اگر کوئ بات سمجھ میں نہیں آتی تو اسے اپنی کم عقلی جانے، اور جب شیخ کوئی نصیحت فرمائیں تو اس میں اپنی طرف سے تاویل نہ کرےمن وعن قبول کرلے، مرید کی لغت میں “کیوں، کب اور کیسے” کے الفاظ نہیں ہونے چاہئیں۔
جو لوگ شیخ کے مخالفین ہیں ان سے دوستی نہ رکھے، اور جن لوگوں کو شیخ پسند فرماتے ہیں ان کا بھی ادب کرے۔
شیخ کی اولاد کا بھی کمال ادب و احترام کرے، شیخ کے زیرِ استعمال اشیاء کا بھی ادب و احترام کرے۔
اپنی جان و مال کو اپنے مرشد کی مِلک جانے، اور ان کے حکم کی تعمیل کو اولین ترجیح دے۔
اگر چہ مرید نے اپنے مرشد کی سالہا سال خدمت کی ہو مگر کبھی دل میں یہ خیال نہ لائے کہ میں شیخ کی خدمت کا حق ادا کرچکا ہوں۔ شیخ کے حضور دنیاوی معاملات کو نہ پیش کرے ، اور روحانی معاملات کو بھی احسن طریقے سے بیان کرے۔اپنے کسی پیر بھائی سے حسد نہ کرے اس کی روحانی ترقی سے خوشی کا اظہار کرے، اپنے پیر بھائیوں کا بھی اپنے مرشد جیسا ہی احترام کرے، خصوصاً خلفاء کا بہت زیادہ احترام کرے۔
اپنے مرشد سے صرف ان کی محبت کی خواہش رکھے ، مراتب کے حصول کی خواہش کو دل میں جگہ نہ دے، اور جب کبھی شیخ خوش ہو کر اپنی رضا و رغبت سے اجازت و خلافت عطا فرمائے تو اسے دل جان سے قبول کر لے، اوراجازت و خلافت کو خدمتِ خلق سمجھے اور ہمیشہ خادم بن کر رہے، کبھی کرامت کی طلب نہ کرے۔
اپنے مرشد کے علاوہ کسی کی طرف مائل نہ ہو اگر کہیں دوسرے بزرگ سے کچھ فیض ملتا ہے تو اسے بھی اپنے مرشد کی جانب سے سمجھے۔
“یک دیر گیر محکم گیر” پر کامل عمل کرے۔ جو ایک در سے وابستہ ہو کر اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اسی در کی خاک بنے رہتے ہیں وہ اپنے مالک کی قبولیت کی سند حاصل کرلیتے ہیں۔
مرشد دروازے اُتے محکم لایئے جھوکاں
نویں نویں نہ یار بنایئے وانگ کمینیاں لوکاں
محبتِ مرشد میں خود کو فنا کردے، اپنی صفات کو شیخ کی صفات سے بدل ڈالے، اپنی ہر رضاکو رضائے مرشد میں گم کردے ، ظاہری و باطنی طور پر اپنے مرشد کی مکمل صورت بن جائے اور اس شعر کا مصداق بن جائے ۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اللہ کریم جل شانہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے مرشدِ کامل کی مکمل اتباع اور ادب و احترام عطا فرمائے،
آمین یا رب العلمین بجاہِ نبی المرسلین ﷺ۔