حضرت شیخ ابوالحسن علی شاذلی رحمۃ اللہ علیہ
Mumtaz Saqafiجولائی 13, 2020
📚 « مختصر سوانح حیات » 📚
———————————————————–
🕯حضرت شیخ ابوالحسن علی شاذلی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: علی بن عبداللہ۔
کنیت: ابوالحسن۔
لقب: امام الاولیاء، قطب الزمان، بانیِ سلسلہ عالیہ شاذلیہ۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ سید ابوالحسن علی شاذلی بن سید عبداللہ بن سید عبدالجبار بن سید یوسف بن سید یوشع بن سید برد بن سید بطال بن سید احمد بن سید محمد بن سید عیسیٰ بن سید محمد بن سید امام حسن مجتبیٰ بن سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم۔ رضی اللہ عنہم۔
اس لحاظ سے آپ حسنی سید ہوئے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 593ھ، مطابق 1197ء، کو بمقام قصبہ “غمار” مراکش، مغرب میں ہوئی۔ وہاں سے قصبہ”شاذلہ” تیونس کی طرف رہائش اختیار کی ،اسی کی نسبت سے “شاذلی” کہلاتے ہیں۔
تحصیلِ علم: ابتدائی بنیادی تعلیم اورحفظ قرآن مجید اپنے قصبے “غمارہ” میں حاصل کی، پھر شاذلہ میں تحصیلِ علم کیا۔شاذلہ سے “فاس” کی طرف مزید حصول علم کےلئے سفر کیا۔یہاں تمام علوم شرعیہ اور فقہ مالکی کی تحصیل فرمائی، فقہ اور عربی ادب کے اساتذہ میں شیخ نجم الدین بن اصفہانی کانام آتاہے، اورعلم الاخلاق و تزکیہ کی تحصیل صوفی ِکبیر عبداللہ بن ابوالحسن بن حرازم تلمیذ رشید سیدی ابومدین غوث علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ پھر آپ عراق تشریف لائے اس وقت عراق علوم اسلامیہ کا مرکز تھا، یہاں مختلف شیوخ سے تحصیل ِعلوم کیا، آپ علیہ الرحمہ تمام علوم ظاہرہ میں کمال رکھتے تھے۔
شیخ ابن عطاء اللہ سکندری فرماتےہیں: آپ علیہ الرحمہ کو تمام علوم و فنون پر ایسا کمال حاصل تھا کہ آپ اس فن کے ماہر سے مناظرہ جیت سکتے تھے۔
بیعت و خلافت: آپ علیہ الرحمہ قطب الاقطاب سیدنا عبدالسلام بن مشیش علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور مجاہدات و سلوک کی منازل طے کرنے کے بعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔
سیرت و خصائص: قطب الزمان، قدوۃ الانام، صاحبِ علم الہدایۃ، مشارالیہ باالولایۃ، بدرالمغرب، قمرالمصر، صاحبِ فیوضات کثیرہ، بانیِ سلسلہ عالیہ شاذلیہ، صاحبِ حزب البحر، ولی بر و بحر، شیخ العارفین، سند الواصلین، امام المتوکلین، سیدالمحققین، صاحبِ معارف اسرار ربانی حضرت شیخ ابوالحسن علی الشاذلی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اس امت کے اکابر اولیاء کرام میں ہوتاہے۔ آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہِ فیض مشرق و مغرب میں عام ہے۔ بڑے بڑے اولیاء و صلحاء و علماء آپ کے سلسلہ میں داخل ہوکر واصل باللہ ہوئے۔
آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے قطب تھے۔ اللہ جل شانہ نے آپ کو ایسا مقام و عظمت عطاء فرمائی تھی، کہ ایسی عظمت و رفعت بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔
آپ علیہ الرحمہ فرماتےہیں: میں نے بغداد کا سفر کیا تاکہ وہاں مشائخ کی صحبت حاصل کروں، میں نے بہت مشائخ کی زیارت کی، اور ان سے ملاقاتیں ہوئیں، اور حضرت شیخ ابوالفتح واسطی جیسا مردِ کامل میں نے سرزمینِ عراق میں نہیں دیکھا۔ ایک دن میں شیخ ابوالفتح واسطی کی مجلس میں حاضر تھا، اور قطب زمان کی بحث ہو رہی تھی، اور عراق میں کثیر اولیاء اللہ تھے، اور میرا خیال یہ تھا کہ عراق میں ہی قطب الوقت موجود ہوگا، اور شیخ ابولفتح واسطی کے اشارے سے ہم ان کی زیارت سے شرف یاب ہوجائیں گے۔
فرماتےہیں: حضرت شیخ ابوالفتح میرے ارادے سے مطلع ہوگئے اور آپ کو مخاطب کرکے فرمایا:
اے ابوالحسن! تم عراق میں قطب کو تلاش کر رہےہو؟ حالانکہ وہ تو تمھارے علاقے میں تشریف فرما ہیں، ان کا اسم گرامی ہے “شیخ عبدالسلام بن مشیش”۔
آپ فرماتے ہیں: میں عراق سے اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوا، حضرت شیخ قطب عبدالسلام بن مشیش رضی اللہ عنہ “مغارہ” میں پہاڑ کے اوپر تشریف فرما تھے۔ میں نے غسل کیا اور اپنے علم و عمل کو دل سے نکال دیا۔(کیونکہ بھرے ہوئے برتن میں کچھ نہیں سماتا) میں بشکل فقیر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ جیسے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ نے فرمایا: مرحبا! اے ابوالحسن علی بن عبداللہ بن الجبار، حضرت شیخ نے میرا سلسلہ نسب رسو ل اللہ ﷺ تک بیان فرما دیا۔
پھر ارشاد فرمایا: اےعلی! تم علم و عمل اور شاہانہ لباس سے آزاد ہو کر فقیرانہ لباس میں آئے ہو، ہم تمہیں دنیا و آخرت میں غنی کردیں گے۔ پھر میں حضرت کی صحبت میں کچھ دن رہا آپ کے فیض صحبت سے میرا قلب و دماغ روشن ہوگیا۔
حضرت شیخ ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: ایک دن میں حضرت شیخ عبدالسلام علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ کی گود میں ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضرت سے اسم اعظم کا سوال کروں، وہ بچہ کھڑا ہوا، میرے رومال کو پکڑ لیا اور کہا:
اے ابوالحسن! کیا تم شیخ سے اسم اعظم پوچھنا چاہتے ہو؟ تم جس اسم ِاعظم کا سوال کرنا چاہتے ہو، وہ تو تم خود ہو۔(یعنی اللہ جل شانہ تمھارے شیخ کی برکت سے تمھارے دل میں القاء کردے گا، یا یہ ہےکہ تمھاری شان یہ ہے کہ تم جو سوال کروگے رد نہیں کیا جائے گا) حضرت شیخ عبدالسلام مسکرائے اور فرمایا:
اس بچے نے ہماری طرف سے جواب دیا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی علیہ الرحمہ فرماتےہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“یا علی طہر ثیابک من الدنس تحظ بمدداللہ فی کل نفس”
یعنی اےعلی! اپنےکپڑوں کو میل سے پاک رکھو، تاکہ تم خدا کی مدد سے ہر دم کامیاب رہو۔
میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کون سے کپڑے صاف رکھوں۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ جل شانہ نے تم کو پانچ خلعتیں پہنائی ہیں۔
اول: خلعت ِ محبت۔
دوم: خلعتِ معرفت۔
سوم: خلعتِ توحید۔
چہارم: خلعت ِ ایمان۔
پنجم: خلعتِ اسلام۔
پھر ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ جل شانہ پر ایمان لاتا ہے، اور اسی کو دوست رکھتا ہے، اس پر ہر چیز آسان ہوجاتی ہے۔جو شخص اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے، اس کی نظر میں دنیا ومافیہا حقیر ہوجاتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو ایک مانتا ہے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تو وہ ہر چیز سے بےخوف ہو جاتا ہے۔ جو اسلام پر ہو وہ گناہ کرتے ہوئے شرماتا ہے، اگر گناہ کرلے تو وہ توبہ کر لیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتاہے۔
شیخ ابوالحسن شاذلی علیہ الرحمہ ہر سال حج کرتے تھے۔ ماہ شوال /656ھ میں مصر سے حج کےلئے تیار ہوئے۔
جب “صحرائے عیذاب” کے مقام پر پہنچے تو اپنےاصحاب کو جمع کیا، انہیں تقویٰ، دین داری، اور حزب البحر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
“بان یحفظوہ لاودھم فانہ فیہ اسم اللہ الاعظم”
یعنی اپنی اولادوں کوحزب البحر حفظ کروانا کیونکہ اس میں اسم الاعظم ہے۔
پھر شیخ ابوالعباس مرسی علیہ الرحمہ کو بلایا، اور انہیں برکتوں سے مالا مال کیا۔ پھر اپنے اصحاب سے فرمایا: میرے بعد تم پر میرے خلیفہ شیخ ابوالعباس مرسی کی اتباع لازم ہے۔ ان کا بہت بڑا مقام ہوگا، اور یہ اللہ جل شانہ کے (رحمت کے) دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں۔ پھر آپ نے قریبی کنویں کا پانی طلب کیا، عرض کیا گیا اس کا پانی کھارا ہے، آپ نے فرمایا لے کر آؤ، جب پانی لایا گیا آپ نے کلی کی اور اپنا دھوون برتن میں ڈال کر فرمایا اس کو کنویں میں ڈال دو، آپ کی برکت سے وہ کھاری کنواں میٹھا ہوگیا، اور اس کا پانی کثیر ہوگیا۔ حضرت شیخ احرام کی حالت میں تھے، دو رکعت نفل کی نیت کی آخری سجدے میں واصل باللہ ہوئے۔قیامت تک حج کا ثواب ملتا رہے گا۔
حضرت شیخ مکین الدین اسمر فرماتےہیں: بہت سے حضرات لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں، اور شیخ ابوالحسن اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔
شیخ تقی الدین بن دقیق العید فرماتے ہیں: میں نے امام شاذلی سے بڑا عارف باللہ نہیں دیکھا۔
شیخ عبداللہ شاطبی فرماتے ہیں: میں خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی دولت سے شرف یاب ہوا میں نے امام شاذلی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:” ابولحسن تو میرا حسی و معنوی بیٹا ہے”۔ آپ کابہت بڑا مقام ہے علماء اسلام نے آپ کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ لکھا ہے۔اس وقت آپ کےسلسلےکا فیضان شرق و غرب میں عام ہو چکا ہے۔ آپ کی دعائے حزب البحر کے طفیل بہت سے لوگ واصل باللہ ہوئے ہیں، اور ان شاء اللہ قیامت تک ہوتے رہیں گے۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 20 /ذوالقعدہ 656ھ، مطابق 18/نومبر 1258ء بروز پیر کو ہوا، آپ کا مزار وادیِ “حمیثرا” مصر میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ و مراجع: امام ابوالحسن شاذلی حیاتہ و خدماتہ۔ رحلہ حج شیخ ابوالحسن الشاذلی۔ نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ۔ نفحات الانس۔